District Tanawal and our Politicians
ضلع تناول اور ہمارے سیاسی نمائندے
تجزیہ:گلفراز جدون
، ضلع تناول کی حمایت اور مخالفت کرنے والے بہت سے سیاسی کردار ابھی تک یہ نہیں سمجھ پارہے کہ کون سا قدم انکے زیادہ حق میں ہے ، پانچ بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونیوالے نوابذادہ صلاح الدین دو بار شکست کا سامنا کرنے کے بعد کالاڈھاکہ اورپکھل کے ووٹروں سے کافی نالاں رہے ۔
ضلع تورغر بننے کے بعد کالاڈھاکہ سے تو جان چھوٹ گئی البتہ پکھل کے ووٹر اب بھی انکے لئے کسی خطرے سے کام نہیں اسی وجہ سے ضلع تناول کے قیام میں انہیں سب سے زیادہ فائدہ نظر آتا ہے جہاں وہ پھر سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکتے ہیں اسی وجہ سے وہ تناول کو ضلع بنانے کے لئے اپنی بھرپور توانائیاں بھی صرف کررہے ہیں ۔
لساں نواب کو ہیڈکوارٹر بنانے کی صورت میں اپرتناول کے عوام کو اپنا مستقبل کافی تابناک نظرآتا ہے اسی وجہ سے وہ ضلع تناول کی فل سپورٹ میں ہیں اور نواب زادہ صلاح الدین سمیت ان تمام سیاسی شخصیات کی بھرپور حمایت کررہے ہیں جو ضلع تناول کے قیام میں انکی مدد کو تیار ہیں
ضلع تناول کا ایشو کھڑا ہونے پر لوئر تناول کے عوام کی طرف سے سب سے زیادہ تحفظات کا اظہار کیاجارہا ہے لوئرتناول میں شیروان،پنڈکرگو خان سمیت دیگر یونین کونسلیں شامل ہیں یہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد جیسے ترقی یافتہ شہر کو کیوں چھوڑا جائے جہاں تعلیم صحت کی ہر طرح کی سہولت دسیتاب ہے جبکہ لساں جیسے پسماندہ علاقے میں ہیڈکوارٹر تسلیم کر کے ضلع تناول میں شامل ہونا روشنیوں سے تاریکیوں میں جانے کے مترادف ہے
ضلع تناول کی مخالفت کرنیوالوں میں مانسہرہ شہر کے شازی خان کے حلقے میں شامل کھواڑی اور منگلور کے عوام کے علاوہ ہری پور کے قاضی اسد کے حلقے سے سرائے نعمت خان اور پیر صابر شاہ کے حلقے کی چاریونین کونسلیں بھی شامل ہیں جہاں منتخب نمائندے اور عوام ایسے کسی بھی فیصلے کی پھرپور مخالفت کے لئے تیار بیٹھے ہیں
شیروان اور ملحقہ یونین کونسلوں کی ضلع تناول میں شمولیت کی مخالفت کرنیوالے سیاسی نمائندگان اس لئے نرم مزاجی سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ضلع تناول بننے کی صورت میں وہاں بھی انکا مقام برقرار رہے جبکہ مخالفت کامیاب ہونے کی صورت میں موجودہ تناظر میں بھی اچھے ووٹ حاصل کرسکیں۔ ایسی دوغلی پالیسی اختیار کرنیوالوں میں قلندرخان لودھی، مرتضیٰ جاوید عباسی ،اور کچھ تنولی خاندان بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ضلع تناول ایک ایسا پسماندہ علاقہ ہے جو ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور کے تین اضلاع میں منقسم ہے رابطہ سڑکوں کی حالت زار اور بعض علاقوں میں عدم موجودگی کی وجہ سے پورا تناول اندرونی طورپر آپس میں جڑا ہوا نہیں کئی علاقوں میں صحت کے مراکز تک موجود نہیں جہاں لوگ آج بھی شہر کے سفر اخراجات برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے بہت سے قابل نوجوان وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں
تناول میں ترقیاتی عمل وقت کی اہم ضرورت قرار دیاجاسکتا ہے مگر جغرافیائی لحاظ سے یہ خطہ کچھ اس طرح ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے کہ اربوں روپے کے ترقیاتی کام کئے بغیر اس خطے کو کسی ایک ضلع میں سمیٹنا ممکن نظر نہیں آتا،اگر سیاسی نمائندوں کے دعوؤں اور وعدوں پر یقین کی کوشش کی جائے تو شیروان روڈ کی حالت ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنادیتی ہے ۔
لوئر تناول کے عوام تو اب وزیر اعلیٰ سے ملنے کے لئے جرگہ تشکیل دے رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ انکے سیاسی نمائندے کس حد تک وفاکرتے ہیں، دن کی روشنی میں ضلع تناول کی مخالفت کرنیوالے بہت سے حلقے رات کی تاریکی میں حمایت کرنیوالے حلقوں سے خفیہ مزاکرات میں مشغول رہتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment